Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست - حصہ پنجم

ماہنامہ عبقری - جولائی 2015ء

 حرام پر نسلیں پالنے کا انجام:میری نسلیں اور اولادیں اسی مال پر پلتی رہیں حالانکہ خزانے کی خدمت پر مجھے معقول معاوضہ دیتے تھے‘ میں اپنے معاوضے کو خاک کرتا رہا اور حرام ملاتا رہا‘ یوں زندگی گزر گئی۔ میری موت بہت بہت بری گھٹیا اور خطرناک ہوئی۔ میں اپنی موت کا تذکرہ آپ کو کیا سناؤں۔ میں اس وقت اتنا کہوں گا کہ میں مال حرام کی بھینٹ چڑھ گیا اور مال حرام سے مجھے آج تک کوئی سکھ نصیب نہ ہوا میں نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بیماریوں میں‘ تکلیفوں میں‘ مصیبتوں میں‘ پریشانیوں میں‘ دکھوں میں‘ جھگڑوں میں اور ایک دوسرے کو نوچتے دیکھا اور ایک دوسرے کی دشمنی دیکھی۔ میں نے اپنی اولاد میں اپنے لیے اپنی ماں کیلئے اور ایک دوسرے کیلئے کبھی محبت کی جھلک نہیں دیکھی‘ ہمیشہ نفرت دیکھی ہے اور نفرت نے میری اولاد کو برباد کردیا ہے۔حرام مال سے چلی بربادی نے قبر میں بھی پیچھا نہ چھوڑا: بس یہ بربادی دنیا میں دیکھی اورمرنے کے بعد بھی قبر میں بھی یہی بربادی چل رہی ہے۔ اے کاش! جن کا میں نے حق مارا تھا ان کا میں حق واپس لوٹا دیتا۔ اے کاش! میں کسی طرح واپس دنیا میں چلاجاتا اور ایک ایک ذرہ ذرہ چاہے مجھے اپنا تن من اپنا جسم بیچنا پڑے وہ ذرا ذرہ واپس کردیتا۔ صحابی بابا فرمانے لگے میں اس کو روتا سسکتا چھوڑ کر تیسری قبر کی طرف متوجہ ہوا۔تیسری قبر کی روح کا پہلی دونوں قبروں سے بُرا حال:  جب تیسری قبر پر مراقبہ کیا تو اس بندے کا حال ان دونوں سے بہت خطرناک اور بہت برا پایا۔ وہ شخص کہنے لگا میں والدین کا ایک کلوتا بیٹا تھا نہ میرا کوئی بھائی بہن تھی‘ میرے والدین غریب تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ان کے لاڈ پیار نے مجھے بگاڑ دیا میرے مزاج میں بغاوت، تکبر اور خودی اتنی زیادہ آگئی میں کسی کو کیا سمجھتا میں خود اپنے والدین کو بھی کچھ نہ سمجھا اور میرے والدین دن رات میری ضرورتوں کو پورا کرتے۔ بیوی کی محبت میں والدین کو بھلا بیٹھا:میرا والد ایک کمہار تھا وہ سارا دن برتن بناتا پھر دن ڈھلے جاتا اور جنگل میں سے لکڑیاں لاتا‘ بھٹی کے پکانے کیلئے۔ میں نے ساری زندگی یہی معمول دیکھا۔ میں کبھی کبھی ان کا ہاتھ بٹا دیتا تھا لیکن میرے والدنے میری تربیت وتعلیم میں کسر نہ چھوڑی۔ پھر میری شادی ہوگئی‘ میں نے اپنی بیوی سے اتنی محبت کی کہ اپنی والدہ اور والد کو بھلا بیٹھا پھر مجھے اپنے والد کے پیشے سے عار آنا شروع ہوئی۔ والد سے گستاخی اور علیحدگی: کیوں؟ میں معاشرے کا ایک اچھا انسان بن چکا تھا میں نے کئی بار اپنے والد کو کہا یہ گھٹیا پیشہ چھوڑ دیں‘ ایک دفعہ تنگ آکر میرے والد نے کہا بیٹا اس گھٹیا پیشے سےتو بڑا انسان بنا ہے۔ آخر تو اس کو گھٹیا کیوں کہتا ہے؟ تجھے کیوں نہیں احساس کہ تو کس پیشے کو گھٹیا کہہ رہا؟ میں نے اس جواب پر والد کے ساتھ بہت زیادہ گستاخی کی اور طے کرلیا کہ میںوالد سے علیحدہ رہوں گا۔ میں نے ایک بہت اچھے گھر میں اپنی رہائش اختیار کی میرا والد کے ساتھ رابطہ رہا پھر آہستہ آہستہ بہت کم ہوتا گیا میری بیوی میرے مزاج کے مطابق ڈھلی تھی اور اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔والد کی وفات اور میرے رسمی آنسو: ایک دن مجھے پتہ چلا والد فوت ہوگئے ہیں ‘میں جب گیا تو میں نے محسوس کیا ان کی میت میرا انتظار کرتی رہی۔ یہ احساس مجھے آج تک کھائے جارہا ہے‘ میں نے والد صاحب کے ساتھ رسمی آنسو بہائے‘ ان کی میت کو کندھا دیا انہیں قبر میں اتارا۔خوشحال زندگی ‘سفر اور والدہ کی وفات: میری زندگی بہت خوشحال تھی میری اولاد تھی‘ سب کچھ تھا پھر ایک وقت آیا میری والدہ بھی فوت ہوگئیں۔ افسوس! اس وقت میں بہت لمبے سفر پر گیا ہوا تھا یہ کشتیوں کا سفر اور گھوڑوں کا سفرتھا۔ میں والدہ کو نہ دیکھ سکا‘ نہ کندھا دے سکا ‘نہ قبر میں پہنچا سکا ۔ اور آخر میں بھی مرگیا:ایک وقت آیاآخر میں بھی مرگیا وہ دن اور آج کا دن میں مسلسل اسی اذیت میں ہوں اور میری ماں کی روح آتی ہے اور آکر مجھے کہتی ہے کہ بیٹا ہم نے تجھے اس لیے نہیں پالا تھا تو ہمیں بھول جاتا۔ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے ‘میری تکلیف ‘میرے عذاب پر‘ میری اذیت پر جو میں صدیوں سے بھگت رہا ہوں اور احساس بھی ہے۔ اے کاش! میری بخشش ہوجائے! اے کاش کوئی مان لے اور  ماؤں کو بے کار نہ چھوڑ دے۔چوتھی قبر کا حال اور صحابی بابا کی سسکیاں: میں چوتھی قبر پر گیا یہ بات کہتے ہی صحابی بابا اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر سسک سسک کر رونے لگے اور فرمانے لگے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں میں نے کتنے درد ناک مناظر قبروں کے اوپر اور نیچے زمین کے اوپر اورزمین کےنیچے دیکھے ہیں۔ میں ایک ایک منظر کا نقشہ کیسے بتاؤں؟ ایک ایک منظر کا حال میں آپ کو کیسے سناؤں؟ میرا دل‘ میری کیفیتیں‘ میرا رواں رواں اس بات کو کیسے پیشکرے۔ میں آپ کو کیسے سناؤں؟آخر انہوں نے اپنا سانس بحال کیا چوتھی قبر کا حال سنایا۔ وہ ایک مرد کی قبر تھی۔والدین کا تابعدار مگر عذاب قبر میں مبتلا: وہ مرد دراصل ایک شوہر تھا‘ شوہر اس طرح کہ اس نے اپنے بچپن ہی سے والدین کی تابعداری ‘والدین کا ادب‘ والدین کا احترام اور والدین کے ساتھ احسان بہت زیادہ کیا۔ وہ بوڑھا ہوکر بھی والدین کا تابعدار اور بوڑھا ہوکر بھی والدین کاحسان مند رہا‘اس نے کبھی والدین کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھا اور ہمیشہ نظریں جھکا کر دل کی کیفیتوں کے ساتھ وہ احترام کرتا رہا۔ اس کی شادی ہوگئی صحابی بابا ٹھنڈی سانس بھر کر سنانے لگے یہ ساری باتیں مجھے اس صاحب قبر نےمجھے بتائیں۔ اس کی شادی ہوگئی اور وہ اپنی بیوی سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد اسے احساس ہوا کہ بیوی کی محبت مجھے کہیں والدین کی محبت سے دور تو نہیں کررہی؟بیوی سے توجہ ہٹائی اور بربادی شروع: بس یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی بیوی سے توجہ ایک دم ہٹالی‘ حالانکہ والدین بہت اچھےتھے وہ بیوی سے اتنی‘ بے توجہی ہرگز گوارا نہیں کررہے تھے لیکن اس کے دل میں نامعلوم کیا ہوا اس نے بیوی سے توجہ اتنی ہٹائی کہ کئی کئی دن اس کا چہرہ نہیں دیکھتا تھا ۔اپنے کاروبار سے آتا اور والدہ کے پاس اور والدہ کہتی بھی تو کہتا نہیں والدہ آپ کی زندگی میں آپ کا ہوں اور یوں اس کی زندگی گزرتی رہی۔مہینوں قرب کو ترستی بیوی کی آہیں: مہینوں بیوی اس کے قرب کو ترستی تھی اگر اس سے اصرار کرتی تو وہ جھڑک دیتا کہتا جس ماں نے مجھے جنا ہے اس کا حق تجھ سے کہیں زیادہ ‘اس کی محبت تجھ سے کہیںزیادہ ہے اس کا ادب واحترام اس کا پیار تجھ سے کہیں زیادہ ‘اس ماں کو آخر میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ اس ماں کےپیار کو آخر کیسے بھلا سکتا ہوں۔ بس! یہ دن رات کی اس کی آواز تھی‘ بیوی اپنے حقوق کیلئےسسکتی رہی‘ تڑپتی رہی۔ آخر یہ شخص بیوی کی محبت کی بھینٹ چڑھ گیا:اپنے حقوق مانگتی رہی پر یہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرسکا اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی نہ کرتے کرتے آخر بیوی بھی چلی گئی۔ یہ بھی چلا گیا لیکن بیوی کی چپکے چپکے اٹھنے والی آہیں ‘ہولے ہولے دل میں اٹھنے والا درد اور اس کے جگر کی چبھن‘ اس کی تنہائی‘ شوہر کے باوجود جدائی کی راتیں‘ تنہائی کی راتیں‘ فراق کی راتیں‘ یہ شخص بیوی کی محبت کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ بہترین انسان وہ ہے جو۔۔۔!: حالانکہ بہترین انسان وہ ہے یہ بات کہتے ہوئے صحابی باباکے آنسو امڈ پڑے وہ اپنے رونے میں ڈوب گئے اور ایسے ڈوبے کہ بس ان کے اندر کی کیفیتیں ختم ہوگئیں۔ صحابی بابا فرمانے لگے بہترین انسان وہ ہے جوماں اور بیوی دونوں کے ساتھ انصا ف کرے۔ ماں کی محبت میں بیوی کی زندگی جہنم نہ بنائے اور بیوی کی محبت میں ماں کی اور باپ کی خدمت سے خالی نہ ہوجائے۔انسانیت اور انصاف اسی میں ہے کہ دونوں کے ساتھ پورا انصاف اور پورے حقوق ادا کرے۔ پانچویں قبر‘ مغرور عورت اور بھیانک انجام: صحابی بابا فرمانے لگے میں پانچویں قبر پر گیا‘ پانچویں قبر ایک ایسی عورت کی تھی جو بہت مالدار تھی‘ خوشحال تھی‘ اولاد بیٹے اور بیٹیاں‘ سواریاں‘ رزق‘ مال‘ چیزیں‘ دنیا کی ہرنعمت اس کےپاس تھی اور بہترین محبت کرنے والا شوہر ملا۔ دل اور جان نچھاور کرنے والے سسرالی ملے۔ بس اس کی زندگی میں پانچ نقصان ایسے ہوئے جس نے اس کی قبر کو آگ بنادیا‘ شعلے بنادیا‘ اس کی روح سسک رہی ہے‘ تڑپ رہی ہے‘ سوز اور گداز میں ہے۔ اس کی روح نے کبھی چین نہیں پایا اس کی روح نے کبھی سکون اور امن نہیں پایا اور اس کی روح ہمیشہ درد میں اور تڑپ میں ہے اور اس کی روح ہمیشہ ایک مستقل سسکن میں ہے۔ میں سمجھتی تھی شاید میں خدا ہوں: وہ عورت کہنے لگی مال اور چیزوں کی فراوانی نے مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے باغی کردیا میں نے ہمیشہ اپنےسر کو ننگا رکھا‘ میں نے کبھی نماز تسبیح ذکر اعمال کا اہتمام نہ کیا۔ میں نے غریب سے حقارت کی۔ میرے پاس ملازم تھے میں مدد بھی کرتی تھی لیکن ان کیلئے دل میں عظمت نہیں تھی‘ میں ہمیشہ ایک ایسی کیفیت کے ساتھ ان کے ساتھ رہتی تھی کہ شاید میں ان کا خدا ہوں؟ مجھے مانگتے ملازم اچھے لگتے تھے‘ میں انہیں بن مانگے دیتی نہیں تھی اورمانگنے کیلئے انہیں تڑپاتی تھی اور یہ تڑپنا اچھا لگتا تھا۔ اعتراض میرا شیوہ تھا:میں لوگوں پر اعتراض کرتی تھی حاانکہ ہر بندے کو رب نے بنایا ہے مجھے کبھی یہ بات سننے کو ملتی تھی میں سنی ان سنی کردیتی تھی اعتراض میرا شیوہ تھا۔ ننگے سر اور بے حجاب رہنا میرا طریقہ تھا: ننگے سر رہنا میرا طریقہ تھا اور ایسے لباس پہنتی تھی جو میرے جسم کے حجاب کو نہیں ڈھانک سکتے تھے اور ایسا لباس پہنتی تھی جو میرے جسم کو مکمل حیا نہیں دے سکتے تھے۔ روزے رکھنا میرے لیے تکلیف دہ تھا:میں اسی طرح زندگی کے دن رات گزارتی رہی‘ رمضان کے روزےا ٓتے تھے ۔مال تھا میں اس کا صدقہ دے دیتی تھی‘ روزے رکھنا میرے لیے تکلیف دہ عمل تھا۔ میں اپنےملازم نوکروں اور غلاموں کو روزے رکھوا دیتی تھی میں سب کچھ یہی سمجھ لیتی تھی میرا دل بھرا ہوا تھا‘ مجھے رب بھول گیا تھا رب کا حبیب ﷺ بھول گیا۔ اللہ کے نیک بندے اولیاء صالحین وہ سب ایسے محسوس ہوتے تھے شاید میں ان پر احسان کررہی ہوں۔میں ہمیشہ اپنی مستی میں مست رہتی: میرا دل اسی جذبے کے ساتھ دن رات بسر کرتا رہا‘ آخر میری عمر ختم ہوئی‘ عمر کے آخری حصے میں ایک نیک صالح عورت میری دوست بنی وہ مجھے نیکی ‘تسبیح‘ درود پاک‘ نیک اعمال کی طرف ہمیشہ توجہ دلاتی تھی لیکن میں نے کبھی اس کی توجہ کو اپنے لیے کچھ نہ سمجھا ۔میں ہمیشہ اپنی مستی میں مست اور کھلے لباس، کھلے جسم‘ کھلے بدن‘ کھلے بال کے ساتھ زندگی کے دن رات گزارتی چلی گئی۔موت سے تین دن پہلے کی کیفیات: موت سے تین دن پہلے مجھے احساس ہوا کہ میرے دل میں گھٹن ہے اور میں گھر سے نکل جاؤں اور یہ کیفیت میرے اندر ایسے بنی رہی۔ میں اپنے دور ایک جاننے والی نوکرانی کے گھر چلی گئی۔ بیٹے بیٹیاں مجھے لینے کیلئے آئے اور بار بار کہتے تھے امی یہاں رہنا آپ کی توہین ہے۔ آپ اس کے برتن میں کھارہی ہیں۔ آپ اس کی ٹوٹی چارپائی پر سورہی ہیں۔ میں کہتی تھی بیٹا نہیں مجھے اب یہاں چین محسوس ہوتاہے اور میرے اندر کاایک انسان جاگا پر دیر ہوچکی تھی۔عذاب میں مبتلا دکھی روح کا پیغام: یہ انسان کئی بار جاگا تھا‘ میں نے اس اندر کے انسان کی کبھی سنی ہی نہیںتھی۔ میں نے ہمیشہ اس کو جھٹلایا تھا، وہ روح بولنے لگی یاد رکھو انسان کے اندر ایک انسان ہوتا ہے وہ اسے جھنجھوڑتا رہتاہے اور اس کو کہتا رہتا ہے کہ دیکھو خیال کرنا لیکن یہ انسان جب سوجاتا ہے تو پھر سو ہی جاتا ہے میں بھی سوگئی تھی۔ اسے کوئی نصیحت ‘کوئی عبرت اور کسی اچھے کی بات اچھی نہیں لگتی۔ بس! وہ پھر ہر کسی کی بات کو برا کہتا ہے بس آج ان اعمال کی وجہ سے مجھے اذیت دی جارہی ہے۔صحابی بابا فرمانے لگےپھر ان کیلئے میں نے دو رکعت نماز نفل پڑھی پھر ان کی مغفرت کیلئے رو رو کر دعا کرتارہا۔ صحابی بابا فرمانے لگے میں آپ کو کیا بتاؤں روحوں کے حالات بہت دردناک بھی عبرتناک بھی اور بہترین بھی ہوتے ہیں۔ میں آپ کو اگلی نشست میں کچھ ایسی قبور کے حالات بتاؤں گا جن سے میں نے نصیحت بھی پائی اور اعمال بھی پائے۔ (جاری ہے)۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 982 reviews.